علامہ اقبال کے ترانٔہ ہند میں ایک مصرعہ ہے کہ مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا لیکن اب اس مصرعے کو اب کچھ ترمیم کرتے ہوئے ہم یوں کہیں گے کہ مذہب نہیں سکھا تا آپس میں پیر رکھنا ، کیوںکہ ہماری عادتیں آج کل ایسی ہی ہوتی جارہی ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن ہے، ایک مسلمان تنظیم دوسری مسلمان تنظیم کی مخالفت کرتی ہے، ایک مسلمان دوسرے مسلم سیاستدان کا دشمن ہے، ایک مسلم ادارہ دوسرے مسلم ادارے کا حریف ہے اور ایک مسجد سے دوسری مسجد کے مصلیان پر الزام تراشیاں ہوتی ہیں، سوچئے کیا یہ اچھی بات ہے؟ کیا آپ کو اس سے خوشی ہوگی ؟ کیا آپ کو اس سے اطمینان مل رہاہے ؟۔ کیا آپ کو سکون مل رہاہے؟۔ ایک اللہ کے بندے ، ایک رسولﷺ کے امّتی اور ایک قرآن کو ماننے والے آخر ایسے کیوں؟۔ کیا اللہ اور اللہ کے رسول نے ہمیں یہی دعوت دی ہے کہ مسلمان آپس میں بکھر جائیں اورایک دوسرے کے دشمن بن جائیں ؟۔ کیا قرآن و حدیث نے ہمیں یہی ہدایت دی ہے کہ ہم آپ میں ایک دوسرے کے خلاف ہوجائیں؟۔ اگر ہاں تو یہ سب کچھ کیجئے اور نہیں تو ایسا نہ کیجئے کہ ہماری آخرت کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی رسواء ہوجائیں۔ سوچئے کہ ان کاموں کو انجام دینے کے لئے کون مسلمانوں کو بھڑکا رہاہے ؟۔ کون مسلمانوں میں نفاق پیدا کررہاہے اور کون عام مسلمانوں کے دلوں میںزہربھر رہاہے ؟۔ جواب آپ کے اور ہمارے منہ میں ہے ہمارے دماغوں میں ہے لیکن ہم پھر بھی واضح کرنا چاہینگے کہ کچھ علماء نماء شخصیات اپنی دکانیں چلانے کے لئے مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں ، وہ علمائے دین بننے کے بجائے علمائے دربار بن گئے ہیں جیسے کہ پہلے زمانے میں بادشاہ و سلطان اپنے درباروں میں اپنے نام کے قصیدے سنوانے کے لئے درباری شاعروں کا تقرر کیا کرتے تھے ۔آج یہی حالت کچھ مٹھی بھر علماء کی ہے جو اپنے کمالات، علم و عرفانیت کا لوہا منوانے کے لئے مسلمانوں کو آپ میںتوڑرہے ہیں اور جو لوگ مسلمانوں کو جوڑنے کا کام کررہے ہیں انہیں عام لوگوں سے الگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ علمائے دین حقیقت میں پیغمبروں کے وارث ہیں لیکن وہ اس وراثت کاسہی استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم آج جو لکھ
رہے ہیںاسے آپ بھلے ہی دل کی بھڑاس سمجھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوںکو متحد کرنے کے لئے کئی لوگ کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں منتشر کرنے کے لئے منبر کا سہارالیا جارہاہے جس کی وجہ سے ہم دنیاو آخرت میں رسوائی کی دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اگرمسلمانوں کے مذہبی پیشواء جو اہل علم ہیں وہ اہل عمل بن جائیںتو اس سے مسلمانوں کی فلاح وبہبودی ممکن ہے ورنہ مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑسکتاہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ تمام علماء پاکدامن نہیں ہیں بلکہ یہ کہہ رہے کہ کچھ علماء اہل اسلا م کو گمراہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ قیامت کے قریب جو کوئی اپنے دل میںرائی برابر بھی ایمان رکھے گا وہ شفاعت حاصل کر پائیگا۔ لیکن آج یہ نوبت آگئی ہے کہ خود اہل علم مسلمانوں کے دلوں سے خوف خدا مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ویسے اسٹیجوں پر وہ عشق رسول ﷺ و خوف خدا کا خوب مظاہرہ کرتے ہیںلیکن جب بات عمل کی آتی ہے تو اپنا دامن بچانے کے لئے دوسرے کے دامن پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ آج کا مسلمان یہ نہیں چاہتاکہ ہم آپس میں لڑیں بلکہ یہ چاہتاہے کہ سکون کی زندگی گزاریں اور وہی کریں جو اللہ اور اسکے رسول نے کہاہے مگرعلمائے کرام اللہ اور رسول کی باتیں کم اپنی باتیں زیادہ بتاتے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو غسل کے فرائض معلوم نہیںہیں انہی دوسروں کوکافر کہنے اورمناظرہ کرنے کے گُر سکھائے جاتے ہیں ۔ مسلم نوجوانو ں کو آداب والدین کا علم نہیں ہے انہیںآداب خانقاہ سکھائے جارہے ہیں۔ سودی بینکوں کو حرام قرار دینے کے بجائے سودی بینکوں میںخیر برکت کے لئے دعائیں کی جارہی ہیں۔ سود دینے و لینے والے کو منع کرنے کے بجائے اسکی حرام کمائی کو مسجدوں و مدرسوں کی تعمیر کے لئے چندے کے طورپر استعمال کیا جارہاہے۔ قرآن کو عمل کے لئے پڑھوانے کے بجائے کاروبار میں برکت کے لئے پڑھایاجارہاہے۔ یہی ایک المیہ ہے کہ مسلمانوں کے حقیقی رہبرآج رہزن بن گئے ہیں جس کا خمیازہ پوری امت کو اٹھانا پڑرہاہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے اور اللہ ہمیںان لوگوںکی راہ پر چلائے جن پراس نے انعام رکھاہے اورلوگوںسے بچائے جو اہل علم ہوکرآل جہل بن گئے ہیں۔
*مضمون نگار روزنامہ آج کاانقلاب شیموگہ کے ایڈیٹرہیں۔